Add Poetry

اسیرِ غمِ دوراں

Poet: مرزا عبدالعلیم بیگ By: مرزا عبدالعلیم بیگ, Pakistan

آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات
سہنے ہی پڑیں گے یہ تقاضے حیات کے
جینا آسان نہیں، زخم سا لگتا ہے
ہر قدم راہِ غم و درد میں ڈھلتا ہے
یہ جو سانسیں ہیں، یہی سب سے بڑی جنگ ہے
وقت ہر موڑ پہ پرکھے گا ہمیں
دھوپ کے بیچ جلیں گے
اور سایہ بھی ساتھ نہ دے گا کبھی

یہ جو صدیوں کا بوجھ اٹھائے ہوئے
ہم خاموشی میں چلتے ہیں
کبھی خوابوں کی راکھ
کبھی لفظوں کی خاک چنتے ہیں
یہی وہ راہ ہے
جس میں ہم بار بار بکھرتے ہیں
اور بار بار جڑتے ہیں

ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے
ہم ابھی دشتِ غمِ دنیا میں چلتے رہیں گے
ابھی لمحے کئی باقی ہیں خموشی کے
ابھی کچھ آنکھیں اور برسیں گی پچھتاووں میں
ابھی کچھ زخم اور جاگیں گے راتوں میں
ابھی کچھ خواب اور بکھریں گے ہاتھوں میں
ابھی کچھ اور موسم آئیں گے
جن کا ذائقہ بھی تلخ ہوگا
ابھی کچھ اور چہرے ملیں گے
جن کی آنکھوں میں دھوکہ بھی ہوگا
ابھی کچھ اور سوال اٹھیں گے
جن کے جواب صرف تنہائی دے گی

ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے
ہم ابھی زخمِ زمانہ کو سہتے رہیں گے
ابھی تقدیر سے کچھ اور شکایت ہوگی
ابھی دل میں کئی درد قیامت ہوں گے
ابھی کچھ زخموں کو لفظوں میں سجانا ہوگا
ابھی کچھ اشکوں کو ہونٹوں پہ چھپانا ہوگا

پر
اسی جبر میں شاید کوئی راحت بھی چھپی ہے
اسی قید میں شاید کوئی آزادی ہے
اسی خستگی میں شاید کچھ حوصلے ہیں
اسی ہار میں شاید کوئی جیت چھپی ہے

ہم ابھی اور اسیرِ غمِ دوراں ہوں گے
ہم ابھی درد کے لمحوں میں جیتے رہیں گے
آزمائے گا بہرحال ہمیں جبرِ حیات
مگر ہم بھی تو عادی ہیں
گر کے سنبھلنے کے
رو کے مسکرانے کے
اور درد کو نظم بنانے کے

Rate it:
Views: 7
28 May, 2025
Related Tags on Life Poetry
Load More Tags
More Life Poetry
Popular Poetries
View More Poetries
Famous Poets
View More Poets