شامیں اداس رہتی ہیں
اجالے آنکھ نہیں بھاتے
ہم چاہیں تو لاکھ چاہیں
غم سنبھالے نہیں جاتے
اسے کہنا لوٹ آئے
اسے کہنا لوٹ آئے
کیسے عمر گزاریں گے
کیسے رسمیں نبھائیں گے
کسے چاندنی راتوں میں
ہم خواب سنائیں گے
اسے کہنا لوٹ آئے
اسے کہنا لوٹ آئے
دل بے چین رہتا ہے
آنکھیں ترسی رہتی ہیں
لب خاموش رہتے ہیں
باتیں بھٹکی رہتی ہیں
اسے کہنا لوٹ آئے
اسے کہنا لوٹ آئے
تتلیوں کے جھرمٹ ہیں
ہر آنگن رعنائی ہے
اسے کہنا لوٹ آئے
بہار لوٹ آئی ہے
اسے کہنا لوٹ آئے
اسے کہنا لوٹ آئے