اشک جگمگاتے ہیں ہونٹ مسکراتے ہیں
جب کبھی تصور میں آپ چلے آتے ہیں
آپ کی حسیں آنکھیں آپ کا حسیں چہرہ
اپنی انگلیوں سے ہم ہر جگہ بناتے ہیں
شاید اداس لمحوں کو اک نئی ادا دے کر
اپنے اپنے حصے کی زندگی چراتے ہیں
اپنے ضبط الفت کو ایسے آزماتے ہیں
اپنے ہی رقیب کو اپنے گھر بلاتے ہیں
کوچہ دلدار میں روز چلے جاتے ہیں
پر انہیں ملے بنا یوں ہی چلے آتے ہیں
اپنے ضبط الفت کو آزمانے کے لئے
ہم رفیق یار کو اپنے گھر بلاتے ہیں
اپنی اصلیت کو بھی بھولنے لگے عظمٰی
روز جو نیا چہرہ چہرے پہ سجاتے ہیں