اضطرابیِ دل کا کوئی ، حل ہی بتاؤ
اسیرِ زٗلفِ یار نہ سہی ، مقتل ہی بتاؤ
جو بھڑکی ہوئی آتشِ سینے کو بُجھادے
برستا ہوا ایسا کوئی ، بادل ہی بتاؤ
کسی یاد میں دھڑکے ہوئے دل کی خبر دو
کوئی آنکھ سے بہتا ہوا ، کاجل ہی بتاو
انسانوں کی بستی میں سامانِ ہلاکت ہے
امان میں رہنے کو ، جنگل ہی بتاو
رونے کے لئے باپ کا کاندھا مجھے دیدو
چٗھپنے کے لئے ماں کا ، آنچل ہی بتاو
جزبات کو کُچل کر دنیا کمانے والوں
کبھی جی ہو جسمیں زندگی وہ ، پَل ہی بتاؤ
شجرِ گمراہی سے بدتر نہیں بُو کوئی
مگر تم نسلِ نَو کو ، صندل ہی بتاؤ
چشمِ غبارِ کو شگافِ فلک کہہ دو
سخت زمین کو تم ، دلدل ہی بتاؤ
بازار میں اب وہ ہیرے ہیں نہ جوہری
ریشمی کپڑے کو تم ، ململ ہی بتاؤ
فہمِ معرفتِ الہیٰ دل سے نکال کر
علم کا میدان بس ، جل تھل ہی بتاؤ
اخلاق طبیعت پر گراں ہیں یہ چُبتے ہوئے سوال
جواب آج نہیں تو ان کے ، کل ہی بتاؤ