اعتبار ٹوٹا ہے بار بار ٹوٹا ہے جِس پہ اعتبار کِیا اس نے یار لوٹا ہے اعتبار والا بھی ایسے یار چھوٹا ہے دِل سے اعتبار والا اختیار چھوٹا ہے بے شمار چھوٹا ہے ایک دو بار نہیں بار بار ٹوٹا ہے اعتبار ٹوٹا ہے