افق کا چاند ستاروں کو ہم نواں کر کے
سحر کو چھوڑ گیا شب کو بےردا کر کے
سنا ہے زخم ملیں تو زمانہ پوچھتا ہے
ذرا اب ہم بھی دیکھیں پا میں آبلہ کر کے
ہمارے شہر میں ہوتا ہے خونِ عدل بہت
نکالے جاتے ہیں غنڈے یاں پارسہ کر کے
رہِ وصال کا ساتھی ہی مجھ کو چھوڑ گیا
ہجر کی بھول بھولیوں میں لا پتا کر کے
قبا پہ داغِ محبت، گریباں چاک میرا
مجھے ملا تو یہی عشقِ با وفا کر کے
تجھے ہیں کام بہت چھوڑ شاعری احسن
نہ جی حیات تو اپنی یوں بے مزا کر کے