شکوہ ء ا ھل خِرد , درد مندانِ جہاں
مِٹ گئے جن کے نقوش وہ اھل زباں
قصّہء لالہ و گل میں مگن راقم داستاں
وہ مردانِ جری آج بھی ہیں شکوہ کناں
کیا ہوئی حسرت و فریاد کی کہانی یا رب
قصہء ارض و سما پہ اقبال کی بانی یارب
تیرے بندے کی وہ اُمّت اور اس کی اُٹھان
مردِ حُر خالد و عون اور وہ اھلِ ایمان
بات چل نکلی تو پھر سبھی نے دیکھا
حدّتِ ایمان سے پگھلے وہ قصریٰ کے محل
سُر چِھڑ ے اور مغنّی سبھی ساتھ ھوئے
غیرتِ ایمانی نے لکھی وہ مدھوش غزل
جس کے قِصّے پھر زبانِ زدِ عا م ھوئے
مردِ مومن پھر خدا سے ھم کلام ھوئے
گُل و لالہ و سرو سے وہ گُلستاں آباد ھوئے
جنکی خوشبو سے چہارعالم جہاں شاد ھوئے
پھر نہ جانے کہاں سے وہ جَھونکا آیا
اپنے ہمراہ ابدی خزاں کا اک تحفہ لایا
حکیمِ لا اُمّت نے پہچانی تھی جس کی نبض
جسم مُردہ ھُوا اور روح ہوئی اسکی قبض
ایک چُنگل سے جونِکلے تو پھنسے اَورسے اَور
پھر زمانے نے کئے و ہ ظلم ستم و جور
آج تک کا نپتی ھے روح مسلمانوں کی
چُھپ گئی ھے حرارت کہیں ایمانوں کی
و قت کے ساتھ ملا کر نہ چلا جو پہیّہ
خوابِ خرگوش میں کچھ بھی نہ ہوُا اسکو مہیا