اب کسی سے دلچسپی نہیں رہی
وہ الفت نہیں رہی ،محبت نہیں رہی
چشم اب حیران نہیں ہوتی رنگ و نور سے
شاید ان ستاروں میں روشنی نہیں رہی
نرالے ہی ڈھنگ دیکھے زمانے کے
دیکھنے کی اور اب سکت نہیں رہی
انساں کہاں یہ مخلوق اور ہے کوئی
کہ باقی ان میں انسانیت نہیں رہی
ہیں کہنے کو یہ زندہ لوگ
قسم سے زندگی ان میں نہیں رہی
عقل قل ہے ارے ہر کوئی
دیوانے میں بھی دیوانگی نہیں رہی
بابی اب کون پوچھتا ہے تمہیں
بات تم میں بھی ویسی نہیں رہی