اماوس میں اگر آنسو ستارہ کر لیا ہوتا
تو تاروں نے فلک ہی سے کنارا کر لیا ہوتا
اگر امید کا دامن نہ ہوتا تجھ سے وابستہ
تو میں نے راکھ لمحوں کو شرارہ کر لیا ہوتا
جو ہوتا کم کسی صورت یقیں حق الیقیں سے تو
کسی کمزور پل میں استخارہ کر لیا ہوتا
خودی اپنی اگر میں توڑتی تو بعد میں کہتی
کوئی دن اور مشکل میں گزارا کر لیا ہوتا
مجھے جگنو سے اپنا پن نہ ملتا تو اندھیرے میں
کسی مصنوعی سورج کو سہارا کر لیا ہوتا
خدا کا شکر ہے عاشی ملی اخلاص کی دولت
غرض کی بھیڑ میں ورنہ خسارہ کر لیا ہوتا