اماں میں نے تیری آنکھوں میں ہمیشہ تفکر دیکھا ہے
اداسی دیکھی ہے چمک دیکھی ہے
اپنی اولاد کی ضرورتیں پوری کرنے کے لئے
اپنی اولاد کے روشن مستقبل کے لئے
اپنی اولاد سے محبت کے لئے
تیرے دل پہ کتنے داغ ہیں
تیری آنکھوں میں کتنے اشک ٹھہرے ہیں
لیکن پھر بھی تیرے لبوں پہ
ہمیشہ تبسم دمکتا دیکھا ہے
تیرے رخسار کی لالی میں محبت دیکھی ہے
وہ بے پناہ محبت جو لازوال ہے جو بےمثال ہے
اماں مجھے یاد ہے تیرا مجھ سے کیا وعدہ
مگر میں شرمندہ ہوں کہ تجھ سے کیا وعدہ وفا نہ کر سکی
اپنے وعدے سے خود ہی نبھا نہ کر سکی
میں نہیں خیال رکھ سکی تیرے گلشن کے پھولوں کا
ویسے جیسے تو نے چاہا مجھ سے کہ تیرے بعد
رکھ سکوں گی میں تیرے آشیانے کے پرندوں کا خیال
تو مجبور تھی میں تجھ سے زیادہ مجبور ہوں
کیونکہ میں اماں نہیں ہوں نہ کبھی ہو سکتی ہوں
تیری اولاد کے لئے جیسی تو تھی
لوگ کہتے ہیں کہ تو اپنی اماں جیسی ہے
میں تیرا عکس سہی پر تو نہیں
اماں مجھے آج بھی تیرے کرب کے
وہ پل وہ دن وہ پہر وہ شبیں یاد ہیں
ایسے جیسے برسوں پہلے کی نہیں آج کی بات ہے
جب تو دن بھر اپنی اولاد کی
ضرورتیں پوری کرنے کی جسجو میں
تھک ہار کے گھر واپس گھر آتی تو
ادھر ادھر گلی سڑک اور چھت پہ بکھرے بچے
امی آگئیں امی آگئیں کہہ کے بھاگے آتے
آ کے تیرے پہلو سے لپٹ جاتے
اور میں چپ چاپ یہ منظر پاس کھڑی دیکھتی
تیرے چہرے کی تھکان بچوں کو دیکھتے ہی
شفقت بھری مسکان میں بدل جاتا
جلدی جلدی ایک ہی بڑے سے برتن میں ہم سب کے لئے
کھانا پکا کے نکالتی اور ننھے ننھے چوزوں کی طرح
ہم سب مل کے جلدی جلدی کھانا کھاتے
اور شاید کبھی یہ دیکھا سوچا ہی نہیں
کہ اماں ہماری طرح جلدی جلدی کھانا کیوں نہیں کھا رہیں
اماں تیرے بچے تو دن بھر کھیل کود کے بعد
پیٹ بھر کے بےفکر ہو کہ سو جایا کرتے
لیکن دن بھر کی تھکن تجھے چین نہ لینے دیتی
اور تو اپنی تھکن اپنی چبھن اپنی تکلیف کا احساس
اپنی اولاد کو ہونے نہ دیتی
لیکن اماں کوئی بےچینی تھی جو
مجھے بھی رات بھر سونے نہ دیتی
اماں میں نے کبھی تجھے قیمتی لباس
قیمتی زیورات میں ملبوس نہ دیکھا
لیکن میری اماں تو پھر بھی سب سے پیاری
سب سے حسین دیکھائی دیتی تھی تیری سادگی
تیری محبت تیرا تکلم تیرا تبسم ہی تیرا حسن
تیری دلکشی تھا کہ تو بے پناہ حسین دکھائی دیتی تھی
لیکن اماں نہ جانے اس حسن اس دلکشی کے پیچھے
کیسے کیسے دکھ چھپا رکھے تھے تو نے اپنی ذات میں
اماں میری بڑی آرزو تھی کہ میں بڑی ہوکہ تیرے لئے
سب سے پہلے سونے کی بالیاں لے کر آؤں گی
اماں تم موتیے کی کلیاں پھر ان بالیوں میں پرو کے پہنوں گی
تو کسی شہزادی سے بھی زیادہ خوبصورت بن جاؤ گی
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اماں۔۔۔۔۔۔! تم تو میرے بڑے ہونے سے پہلے ہی
ہم سے بچھڑ گئیں بہت دور ہم سے بہت دور نکل گئیں
اماں میں کیسے سمیٹتی تیرے آشیانے کو میں تو خود بکھر گئی
جب سے تجھ سے بچھڑ گئی اماں۔۔۔! تیری اولاد بکھر گئی