کھڑکی پچھواڑے کی کھلتی تو نظر آتا تھا
وہ املتاس کا پیڑ
ذرا دور اکیلا سا
کھڑا تھا
شاخیں پنکھوں کی طرح کھولے ہوئے
اک پرندے کی طرح
ورغلاتے تھے اسے روز پرندے آکر
جب سناتے تھے وہ پرواز کے قصے اس کو
اور دکھاتے تھے اسے اڑ کے قلابازیاں کھا کے
بدلیاں چھو کے بتاتے تھے مزے ٹھنڈی ہوا کے
آندھی کا ہاتھ پکڑ کر شاید
اس نے کل اڑنے کی کوشش کی تھی
اوندھے منہ بیچ سڑک جا کے گرا ہے