عجلتوں میں صادِر ہوا
حکم ملا ہے غنیم کا
بس کہہ دیا ہےحاکم نے
کرو صرف حُسنِ یار کا تذکرہ
اگر فکرِ جاں عزیز ہے
نہ کرو ہم کو خفا
جو ہم کہیں تمہیں
بس وہی لکھا کرو
نہ امیرِ شہر کا ذکر کرو
نہ غنیمِ وقت کی بات کرو
کیا پڑی کہ رات دن
کہو حاکموں کو بُرا بھلا
’’وہ برقِ لہر بجھا دی جائی گی جسکی تپش
وجودِ خاک میں آتش فشاں جگائی گی
بس شرط یہ ہے جو جاں کی اماں چاہتے ہو
اپنے لوح و قلم قتل گاہ میں رکھ دو‘‘
ہے اب مرا حکم یہ
کہ گلی گلی یہ پیغام دو
جو امیرِ شہر حکم دے
بِلا حُجَت مان لو
جو مرے مفادات کے حق میں نہیں
انہیں گردنوں سے مروڑ دو
جو مرا خطیب کہے تمیں
وہی اصل ہے اسے مان لو
جو چند رہ گئے ہیں اہلِ خِرَد
انہیں بھوک پیاس کی مار دو
جو کوئی حق طلب کرے
اُسے زمیں میں اتار دو
جو ہیں با وفا و با صَفا، وہی دربدر
یہی طرزِ نصاب ہے
جو لوٹ کھائیں ملک و ملت، وہی معتبر
یہی روزِ حساب ہے