ان سے کہدو کہ محبت نہیں ہوگی ہم
ہاں بڑی ہے سو یہ خدمت نہیں ہوگی ہم سے
زندگی تجھسے وفا میں ملے دھوکے ہم کو
یاد رکھ اب یہ حماقت نہیں ہوگی ہم سے
چھوڑدی کب سے محبت کی کہانی ہم نے
دل جلانے کی شکایت نہیں ہوگی ہم سے
غور سے سن لے ذرا ظلم نگر کے حاکم
اب کسی طور بھی طاعت نہیں ہوگی ہم سے
خشک روٹی پہ گزارا تو کیا جا سکتا ہے
چاپلوسی کی روایت نہیں ہوگی ہم سے
ہم فدایانِ محمد ہیں نہ چھیڑو ہم کو
انکی حرمت پہ سیاست نہیں ہوگی ہم سے
شعر جو بحر سے خارج ہے سراسر بدری
ایسے اشعار کی مدحت نہیں ہوگی ہم سے