حسن تخلیق کو پردوں میں چھپا دیتے ہیں
اپنی تنقید سے شہکار مٹا دیتے ہیں
اس کی الفت میں چلو تھوڑی سی رسوائی ملی
لوگ تو عشق کی کچھ اور سزا دیتے ہیں
ہر ستم سہتے رہے اور گلہ بھی نہ کیا
ہم تو مٹ کے بھی ستم گر کو دعا دیتے ہین
چارہ گر دیکھ لیے ڈھونڈیے اب ان کو کہیں
جو مسیحا بھی نہیں اور شفا دیتے ہیں
ان کو امرا کی پزیرائی کا رہتا ہے خیال
اہل زر در سے فقیروں کو بھگا دیتے ہیں
جو ہو مقصود نکل جائے تو رک جاتے ہیں
راہبر ایسے میں منزل کا پتا دیتے ہیں
میری ناکام محبت کے فسانے زاہد
ان کی پلکوں پہ ستارے سے سجا دیتے ہیں