نہ جانے کون دعاؤں میں یاد رکھتا ہے میں ڈوبتا ہوں سمندر اچھال دیتا ہے خود پیاس کا صحرا ہوں مگر دل کی یہ ضد ہے ہر دشت پہ ساون کی طرح ٹوٹ کے برسوں یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے