کچھ دیر تیری یاد سے غافل رہا تھا میں
وہ لمحے کر رہے ہیں مجھے شرمسار سے
میں بھی آئینہ تو بھی آئینہ
دیکھ اک بار سامنے ہو کر
بتوں سے تجھ کو امیدیں خدا سے ناامیدی
مجھے بتا تو سہی اور کافری کیا ہے
وہ کون تھا جو میرے ساتھ ہمکلام رہا
میرے سوا کوئی انسان تھا آس نہ پاس
تیرے نقش پا کی تلاش تھی
جو جھکا رہا میں نماز میں
عشق پر فریاد لازم تھی سو وہ بھی ہو چکی
اب ذرا دل تھام کر فریاد کی تاثیر دیکھ
تجھ کو بھی کچھ آگہی مل جائیگی
تو میری دیوانگی اپنا کے دیکھ