مردود ٹھہرائے جاتے ہیں
گلیوں سے بھگائے جاتے ہیں
جب عشق انہیں تڑپاتا ہے
تب فتوے لگائے جاتے ہیں
محفل میں گھنٹوں پھر پھر کے
جب پردے اٹھائے جاتے ہیں۔
اپنی ہی خبر نہ ہوتی ہے
وہ ہوش اڑائے جاتے ہیں۔
جو داغ ختم ہوں مشکل سے
وہ داغ لگائے جاتے ہیں
کبھی پہروں رلایا اور کبھی
سارے جگ میں ہنسائے جاتے ہیں۔
وہ وار کریں ان تیروں سے
جو ہم پہنچائے جاتے ہیں
ابھی ایک گرا اور دوسرا بھی
ہم سب ہی اٹھائے جاتے ہیں
اک عشق ہوا وہ جرم رہا
نظروں سے گرائے جاتے ہیں
رونق بھی برابر بڑھتی رہی
مہمان جو آئے جاتے ہیں۔
اس دنیا کے دھوکے میں صرف
حیلے ہی بنائے جاتے ہیں
جو شوق سے گلی میں آتے ہیں
اب خوں میں نہائے جاتے ہیں
سب خواب ہی جھوٹے ہوتے ہیں
کیا خواب دکھائے جاتے ہیں
وہ لوگ اترتے ہیں جی سے
جو دل میں بسائے جاتے ہیں
جب خوشی نہیں ان آنکھوں میں
کیوں رستے سجائے جاتے ہیں
بس فرق کہ وہ تو جھوٹے پر
ہم وعدے نبھائے جاتے ہیں
جن رستوں سے اترے گا دل میں
وہ رستے بنائے جاتے ہیں
وہ پھر سے جیتے ہیں کیونکر
ہم پھر سے ہرائے جاتے ہیں
اب ختم ہوا ہے افسانہ
اور ہم بھی جائے جاتے ہیں