اِک شام میں آیا تیری چوکھٹ پر
تیری دید کا تھا انتظار بہت
حَوَس نہیں تھی، پیار تھا یہ
تیرے عشق کا بہت وفادار تھا میں
تیرے شہر میں کئی بار آۓ تھے
تیری مہک نے رستے بتلاۓ تھے
اُن گلیوں میں اِک سکون تھا
ملاقات کا بھی اِک جنون تھا
وہ نہر و آبشار اور باغ سبھی
کہہ رہے کہ تو موجود ہے یہیں
دیکھا میں نے اِک حویلی کو
دل نے جَنم دیا اِک پہیلی کو
رَستے تو سارے ٹھیک تھے
گَردِش میں سِتارے ٹھیک تھے
پھر دل میں کیوں بے چینی تھی
باتیں تو بہت سی کہنی تھیں
اور! پھر وہی ہوا جس کا ڈَر تھا
وہ سَجا ہوا تیرا ہی گھر تھا
تیرا چہرا بڑا پُر نور تھا
قدرت کا کوئ خاص ظہور تھا
لبوں پر ایک کپکپاہٹ تھی
آنکھوں میں اک شرماہٹ تھی
تو نے کہہ دیا کہ "قبول ہے"۔
میں چل دیا کہ رُکنا فضول ہے
اور! پھر شام بھی اب ڈھل گئ
ٹھنڈی ہَوا بھی اب چَل گئ
یادوں کا دِیہ بھی اب بُجھ گیا
باتوں کا دریا بھی اب رُک گیا
واپسی کا اب کوئ سفر نہیں
دیکھنے کا اب کوئ منظر نہیں
بھول گیا میں تیرے شہر کو
سہہ گیا میں صبر سے قہر کو
اب نہ ہو گی ملاقات کبھی
اب نہ ہو گی تیری بات کبھی
،نام تو میرا 'ذوہیب' ہے مگر
تیرے لۓ اب انجان ہوں میں
تیرے لۓ اب انجان ہوں میں