اندھیرے کے تعاقب میں کئی کرنیں لگا دے گا
وہ اندھا داؤ پر ابکے میری آنکھیں لگا دے گا
مسلسل اجنبی چاپیں اگر گلیوں میں اتریں گی
وہ گھر کی کھڑکیوں پہ اور بھی میخیں لگا دے گا
فصیل سنگ کی تعمیر پر جتنا بھی پہرا ہو
کسی کونے میں کوئی کانچ کی اینٹیں لگا دے گا
میں اس زرخیز موسم میں بھی خالی ہاتھ لوٹا تو
وہ کھیتوں میں قلم کر کے میری با نہیں لگا دے گا
وہ پھر کہ دے گا سورج کو سوا نیزے پہ آنے کو
کٹے پیڑوں پہ پہلے موم کی بیلیں لگا دے