دنیا کے حوادث سے پریشان ہے انساں
ہر چال سے لوگوں کی یہ انجان ہے انساں
یہ عشق کے دستور سمجھتا ہے تبھی تو
کرتا یہ محبت پہ جاں قربان ہے انساں
دیکھی نہیں جاتی ہے یہ لوگوں کی تباہی
خود روپ میں انسان کے شیطان ہے انساں
اشرف ہے بنایا جہاں میں جس کو خدا نے
اپنی ہی تباہی کا بھی سامان ہے انساں
یہ بھول چکا اپنے ہی بننے کے مراحل
اس دور میں بھی کتنا یہ نادان ہے انساں
ابلیس کی چالوں کو سمجھ جاتا ہے جو بھی
دنیا کی حقیقت سے پریشان ہے انساں
ارشیؔ چلو اپنا یہاں مشکل ہے گذارا
انسان کے کردار پہ حیران ہے انساں