یہ دود کہ جس میں امیروقت ہی امیر ہیں
جو یہاں بدنام ہیں وہي صاحب توقیر ہیں
مجرم آزاد ہیں آم آدمی اسیر ہیں
اس دور کے منصور الم کی تصویر ہیں
بس یہ دور انقلاب کا نہیں عذاب کا ہے
یہ ملک جو اک مرکز اسلام ہے
مگر اب ہرکوئی یہاں اسلام سےبےزار ہے
نفرتوں کی جیت ہے محبتوں کی ہارہے
یہی تو مسلمانوں کے زوال کا آغاز ہے
بس یہ دور انقلاب کا نہیں عذاب کا ہے
ہے زبان پر کلمہ مگر دل میں کچھ بھی نہیں
یہ بھی سچ کہ ہمارے اعمالوں میں رکھا کچھ نہیں
ہیں مسلمان ہم مگر ہے شان مسلمان کچھ نہیں
پھر کیوں کہتےہو دعاؤں میں اثر اب کچھ نہیں
بس یہ دور انقلاب کا نہیں عذاب کا ہے
ہے مسلمان تو اگر تو غیر کے آگے جھکتا ہے کیوں
ہے خدا جب رزق دیتا تو زر کا بندہ تو ہے کیوں
ہے تیری باتوں میں اسلام پر نہیں زندگی میں کیوں
پھر تم کہتے ہو خدا میری نہیں سنتا ہے کیوں
بس یہ دور انقلاب کا نہیں عذاب کا ہے
مال کی راسخ محبت دلوں میں ہو گئی
پھریوں ہوا سخاوت گئی اور غریبی آ گئی
ہاتھ پھیلایا تو جو خوداری بچی تھی وہ گئی
اسلاف کی عظمت گئی جمیعت مسلم گئی
بس یہ دور انقلاب کا نہیں عذاب کا ہے
پوچھتا ہے تو قصورزندگی اپنا تو دیکھ
کشمیرو برما میں بربریت کی سیاہ راتوں کو دیکھ
پھرتاریخ کے صفحے الٹ اور محمد بن قاسم کو دیکھ
تھی اسی زمین و فلک پہ دہشت مسلم تو دیکھ
بس یہ دور انقلاب کا نہیں عذاب کا ہے
آنکہیں تو ہیں اب بھی وہی پر نظر اب وہ نہیں
ذکر محبت عام ہے سوزمحبت اب نہیں
راستہ اب بھی وہی ہے رہبر اب وہ نہیں
کیسے آئے انقلاب من کا جہاں اب وہ نہیں
بس یہ دور انقلاب کا نہیں عذاب کا ہے
بس یہ دور انقلاب کا نہیں عذاب کا ہے