چھپائے داغ ِ محرومی، شباب پھرتے ہیں
دیتے ہیں دستک گھر گھر خاب پھرتے ہیں
نہ چاہ گردش زمانہ ذوق سربلندی ان سے
اس بستی کے جوان خالی ہاتھ پھرتے ہیں
ناصح انہیں دے رہا ہے درس محبت کیوں
اٹھاکر حسرتوں کے لاشے اہل کتاب پھرتے ہیں
نہ چھیڑ اے باد مخالف ان خستہ نشینوں کو
انقلاب کے منبع یہاں بے حساب پھرتے ہیں