انوکھی رت ہے آج کل عجب سا ماجرا ہے
بارش چاہنے والا بارش سے تنگ آیا ہوا ہے
کئی دِنوں سے دھوپ کا دیدار نہیں کِیا ہے
اگرچہ خورشید بادلوں سے نبرد آزما ہے
بادلوں کی اوٹ میں چاند بھی چھپا ہے
کئی راتوں سے چاند کا چہرہ نہیں دیکھا ہے
گھاس سبزہ ہریالی پھولوں کی ہر ڈالی
ارض چمن کا میدان پانی سے ڈھکا ہے
گرمی سے تلملایا بارش کا شیدائی بندہ
آج بارش کی طغیانی سے پناہ مانگ رہا ہے
کچا پکا مکان ڈوبا گھروں کا سامان ڈوبا
شہر کا شہر سارا ہی دریا بنا ہوا ہے
ڈوبنے والے انسانوں کا سوگ منا رہی ہے
افسردہ سی شام ہے اداس اداس فضا ہے
اب جو بارش برسے مولا رحمت ہو زحمت نہ ہو
دکھی دِلوں کی فریاد ہے غمزدوں کی دعا ہے