اُس اجنبی نے نیا آج ایک کام کیا
مرے قریب سے گذرا مجھے سلام کیا
نہ تھا وہ شخص بکاؤ یہ سچ تو ہے لیکن
ضرورتوں نے اُسے وقت کا غلام کیا
مٹا گیا تھا وہ صدیوں کے فاصلے جیسے
سفر تو اُس نے مرے ساتھ دو ہی گام کیا
میں کس زباں سے کروں شکریہ ادا تیرا
تری نظر نے عطا مجھ کہ یہ مقام کیا
بناۓ مٹی کو سونا تو ایسا پارس ہے
کیا ہے تو نے جسے مس اسی نے نام کیا
ہر اک نظارا ہی اب سرمئی سا لگتا ہے
جھٹک کے زلف گھٹا نے صبح کو شام کیا
جو گر گیا تھا نگاہوں سے ایک لمحے میں
وہ تھا تو خاص محبت نے جس کو عام کیا
میں پوچھ لوں گی کبھی ہو سکا اگر ممکن
یہ کس نے وقت کے گھوڑے کو بے لگام کیا؟
ہر ایک بار مصیبت سے بچ نکلنے کا
مرے خدا تری رحمت نے انتظام کیا
ملی نجات اُسی کو تمام زخموں سے
وہ جس نے ترک ارادۂ انتقام کیا
پڑی نہ مجھ کو ضرورت دواؤں کی عذراؔ
اس عشق نے تو میرا کام ہی تمام کیا