اس سے ملنے کا بند و بست کیا
ہم نے خود کو ہے لخت لخت کیا
اس کو چاہا ہے کتنی شدت سے
اس کو ہم نے ہے خود پرست کیا
وصل کی شب جنوں کے لمحوں کو
جب گزارا تو سرگزشت کیا
اس کو خود پر نہ اعتماد رہا
اس نے لہجے کو آج سخت کیا
اپنی سوچیں سمیٹ کر میں نے
دشتِ امکان کو ہے تخت کیا
یاد باندھی گرہ میں ہم نے مرادؔ
اور پھر یاد ہی کو رخت کیا