اُس نے چاہا تھا مجھے پر ٹوٹ کر چاہا نہ تھا
مجھ میں کھو کر بھی وہ اپنے آپ کو بھوُلا نہ تھا
دو قدم چل کر ہمارے راستے ہوں گے جدا
یوں بھی ہوجاۓ گا ہم نے یہ کبھی سوچا نہ تھا
آج پھر مارا گیا تھا اِک غریبِ بے وطن
شہر میں اُس قتل کا لیکن کویٔ چرچا نہ تھا
بات آکے رُک گیٔ تھی سب کی سب اِک پرکھ پر
بس وہی مخلص لگا جس کو کبھی پرکھا نہ تھا
کل تو ہم ہی آپ کی پہچان تھے مت بھولیۓ
اِس طرح نہ دیکھیۓ جیسے کبھی دیکھا نہ تھا
ایک مدت سے مری آ نکھوں میں ساون قید تھا
جس طرح اب ٹوٹ کے برسا ،کبھی برسا نہ تھا
میں نے چاہا جِس کو عذراؔ برف کا اِنساں تھا وہ
اُس کے دِل میں پیار کا شعلہ کبھی بھڑکا نہ تھا