اُسے میرے گھر کے اندھیروں سے کیا مطلب
نصیب جسکا ہر سُو اجالے ہیں
برستی بارشوں میں ٹپکتی چھتوں کا عالم
بوسیدہ یہ دیواریں ، کب سے اسے سنبھالے ہیں
غم فراق ہے بس اجڑے عشق کی دولت
میرے طبیب میرے اپنے دل کے نالے ہیں
نہ رہا شکوہ کوئی نہ کوئی رنجش باقی
درد ہی درد زندگی میں میں اتنے پالے ہیں
بیاں تو کردو تیری داستان ستم سب سے ، مگر
میری زباں پہ لگے الفتوں کے تالے ہیں
روشنی ہے جس سے زندگی میں تیری
میرے جلتے وجود کے وہ اجالے ہیں