اُٹھا ہے جو پہلو سے کوئی درد پرانا
مُمکن نہ رہا آنکھ سے اشکوں کا چُھپانا
آنکھوں سے برستے رہے انمول نگینے
جیسے کوئی زردار لُٹاتا ہے خزانہ
لکھا ہے جو خاموش نگاہوں نے ہماری
تا دیر رہے گا وہ تیرے لب پہ فسانہ
کیونکر شبِ تنہایئ مجھے راس نہ آتی
کچھ اُس کی نہ منزل ھی نہ کچھ میرا ٹھکانہ
یوں بھی ہمیں نسبت تیری آنکھوں سے رہے گی
غم تیری نشانی ہے یہ دل تیرا نشانہ
ہنستے ہیں تو دنیا کو گوارا نہیں ہوتا
روتے ہیں جو ہم لوگ تو ہنستا ہے زمانہ