اِس رستے پر یہ جو اک ہرجائی ہے، تنہائی ہے
شام ڈھلے جو آنگن میں کملائی ہے ، تنہائی ہے
دل کے صحن میں ہجر کی کالی رات کے گہرے سائے ہیں
اور منڈیر پہ آ کر جو گھبرائی ہے ، تنہائی ہے
غم کا اک عالم ہے ، دل پر صدیوں کا پچھتاوا ہے
اُن آنکھوں میں اتنی جو سچائی ہے، تنہائی ہے
رات کو میں نے خواب میں خود کو حد سے زیادہ خوش دیکھا
لوگوں نے تعبیر مجھے بتلائی ہے ، تنہائی ہے
دنیا کیا شے میں نے تو خود کوبھی خود سے دور کیا
پھر بھی میرے ساتھ وہی پرچھائی ہے ، تنہائی ہے
اُس نے مجھ سے پوچھا ارسہؔ کیا مابین ہمارے ہے؟
اور پھر اک آواز کہیں سے آئی ہے ، تنہائی ہے