آج ہنگامہ بپا ہے کیا ہے
ایک محشر سا اُٹھا ہے کیا ہے
سہمی سہمی سی فضا ہے کیا ہے
خامشی درد سرا ہے کیا ہے
گردشِ وقت پتا ہے کیا ہے
یہ سزا ہے کہ جزا ہے کیا ہے
جو سُوئے چرخ اُڑا ہے کیا ہے
طائرِ حرفِ دعا ہے کیا ہے
قُمۡ باِذۡنی نے اُٹھایا جس نے
وہ وریٰ ہے کہ خدا ہے کیا ہے
عالمِ حال میں بس رہنے دو
مجھ سے مت پُوچھو کہ کیا ہے کیا ہے
کیا ہُوا تجھ کو نظامِ شمَسی
موسمِ کرب رُکا ہے کیا ہے
آندھیو! اتنی بھی عُجلت کیسی
اک دیا ہی تو جلا ہے کیا ہے
پھر اُسی سوچ جزیرے کی طرف
بادباں کُھلنے لگا ہے کیا ہے
نخلِ سر سبز کی آنکھوں سے عجب
برگِ بے رنگ گِرا ہے کیا ہے
احتیاط آگئی لہجے میں ترے
یہ شکایت ہے گِلہ ہے کیا ہے
جلتا بجھتا سا شبِ لب پہ کہیں
کوئی جگنو ہے دِیا ہے کیا ہے
کس لیے میں کروں شکوہ عاشی
بس، ذرا دل ہی دکھا ہے کیا ہےٍ