محبت کی فراوانی
طلبگاری کی خواہش
گرچہ اِک حقیقت ہے
مگر پھر بھی
جانے کب سے
نامکمل داستانوں کے انبار
لوگوں کا مقدر ہیں
وہ پیمان تم نے جو توڑ دیا
جس کے گواہ
ڈوبتے تارے تھے
اب تم کچھ بھی کہو
بجا ہے، درست ہے
ہم کج خیال و کج نگاہ
لیکن ہے طمانیت دل کو
جب سے یہ بھید کھلا
تم اسبابِ سزا نہیں، سزا ہو
سنو! آخری ملاقات رکھتے ہیں
لازم تم چلی آنا
ایجنڈا مختصر ہوگا
بس اتنی بات کرنی ہے
مفارقت کی گھڑی تعاقب میں تھی
آخر آن پہنچی ہے