دن ڈھلا رات ڈھلی یہ موسم بھی ڈھلے
ڈھلا سب کچھ لیکن اپنی تنہائی نہ ڈھلی
رشتوں کے جھمگٹے،انسانوں کھ جھنڈ
جدھر بھی گیا میری بے چینی نہ ڈھلی
جدھر دیکھا میں نے تجارت ہی پائی اکثر
کہیں خلوص بھی ہوتا، یہ خواہش نہ ڈھلی
پیار کے نام پر جسموں کی تجارت عام یہاں
کہیں پیار بھی ملتا ہوتا، یہ تشنگی نہ ڈھلی
ہمدم بنتے ہیں، شہوت بجھانے کی خاطر
کہیں ایسا نہ ہو، یہ آرزو میری نہ ڈھلی
کتنے لوگ مل چکے، سوداگر تھے جا چکے
کوئی ساتھ ہوتا، تیری کسک اویس نہ ڈھلی