اپنی خوشی کے سارے سامان ڈھونڈتی رہی
میں تَجھ میں اپنی ذات کے امکان ڈھونڈتی رہی
میںً کھو کے اَسے کتنے گم گشتہ راستوں میں
خود اپنے آپ کو بھی پریشان ڈھونڈتی رہی
جس میں ہمارا ذکر ہو اک دوسرے کے ساتھ
میں سب وہی دیوانوں میں دیوان ڈھونڈتی رہی
وہ جو ازل سے ہی میرے پیکر میں بس رہا ہے
میں اَس کو ہی ازل سے نادان ڈھونڈتی رہی
عظمٰی جو عارضی قیام کے لئے آیا تھا
میں اس مکان میں وہی مہمان ڈھونڈتی رہی