اپنی عادت بن گئی ہے حادثوں کو سوچنا
پیار کے صحرا پہ پھیلے راستوں کو سوچنا
بھوک کے بستر پہ سوئے گا وہ آخر کب تلک
جس کی قسمت میں لکھا ہو رتجگوں کو سوچنا
مجھ کو اپنی ماں کی عادت آج تک بھولی نہیں
دکھ کی بارش میں بھی میری راحتوں کو سوچنا
آج کے منصف سے اَن بن اس قدر مہنگی پڑی
جبر کے زنداں میں اس کی وسعتوں کو سوچنا
خواہشیں اور خواب ساتے چھین کر وہ لے گیا
اب اکیلے چار سو ان ساعتوں کو سوچنا
درد کی چھاؤں گھنی اور چاہتوں کے روز و شب
درد میں ڈوبے ہوئے ان سلسلوں کو سوچنا
واردات عشق بھی آساں نہیں ہے دوستو
سوچ کر رکھنا قدم اور ضابطوں کو سوچنا
اپنے ہاتھوں میں ازل سے پیار کی ریکھا نہیں
کاتب تقدیر کے تیرے فیصلوں کو سوچنا
میں نے میر شہر کے در پہ لکھا ہے دوستو
فرصتیں مل جائیں تو پھر بے بسوں کو سوچنا