اپنے تکیے پہ میرا چاند اُدھاری رکھ لو
زندگی آج یہ خوابوں کی پِٹاری رکھ لو
رات کیا؟ سُرمئی ڈَھیری سے بَہا پانی ہے
جام بھر بھر کے پیو درد شُماری رکھ لو
منزل ِشوق کے رستے سبھی پُر پَیچ مگر
ساتھ اپنے کسی جذبے کی سواری رکھ لو
لب معذور ہیں ہنستے ہوئے جَل اٹھتے ہیں
دل ِخوش فہم! کوئی اور مَداری رکھ لو
شام ڈَھلتے ہی ستاروں کی فُغاں ہوتی ہے
اپنے آنگن میں مری صبح کی خواری رکھ لو
اے میرے روح ِعصر! میرے اَمر ہونے تک
قریہ ِجاں میں رہو! دل کی اِجاری رکھ لو!
نیند آئی ہے مگر رات سے نسبت نہ رہی
مرے لہجے میں کسی دن کی خماری رکھ لو