آج ایک اور یاد اپنے سفر کو پہنچی
ادھر سے نکلی ادھر کو پہنچی
آج پا لی ہم نے اپنی فکرات کی تجلی
ہماری نگاہ اٹھ کر جو ان کی نظر کو پہنچی
چوٹ ان کےلہجے کی ہمارے کانوں پر پڑی
آنکھوں سے شروع ہوی پیڑ جگر کو پہنچی
آج ہماری مسافتوں کا قصہ تمام ٹھرا
ان کی ہماری تشنہ لبی قبر کو پہنچی
یہ جو نا واقفیت تھی تقدیر سے آشنا ہوئی
آج ہر ایک خواہش انجام صبر کو پہنچی
انسانیت کے زائچے مے نیا مراہل ہم نے دیکھا
ہر ایک لفظ جاوید نکلا زیر بھی زبر کو پہنچی