اپنے عکس کو خود سے ، جُدا کر کے
چل سکا کون یہ ، فیصلہ کر کے
میرے مُخالِفوں سے ہی تھا عروج میرا
میں تھم گیا ہوں ان سے ، کنارہ کر کے
بات بات پر بنٹ جانے کی عادت نے
ہمیں رکھ دیا جہاں میں ، پسپا کر کے
یہ منبروں سے اتحاد شکن تقریریں
کیا ملتا ہے تمہیں امت کو ، رسوا کر کے
اِن فرقوں کا موجد بھی فرنگی ہے
جاٶ دیکھ لو تاریخ کا ، پیچھا کر کے
بات سیدھی تھی مگر دل میں اترتی کیسے
ہم نے رکھا ہی نہیں دل کو ، سیدھا کر کے
لوگ جب سے اک دوجے کے دِلوں میں گھس بیٹھے
بیٹھتے دیکھا نہ اُنہیں پھر اک ، حلقہ کر کے
اپنے یقین کو سینے میں سینچٸیے اپنے
کیوں پھیلاتے ہو فِتنے ، چرچا کر کے
غمِ أقاﷺ سے گر تجھے کچھ نسبت ہوتی
کرتا دعا تو راتوں کو ، سجدہ کر کے
جزبہِ عشقِ حقیقی سے اب تک ” اخلاق “
تم نے دیکھا ہی نہیں خود کو ، أشنا کر کے