اچھی دیوانگی تھی کہ راہوں میں پڑے تھے
گلیوں میں پڑے تھے کبھی نالوں میں پڑے تھے
ہم موسم خزاں کے پتوں میں پڑے تھے
اور اہل جہاں بھول کر رستوں میں پڑے تھے
کیا خبر کب کون آئے ہمیں اٹھا لیں
ہم جب بھی اٹھے تھے تیرے قدموں میں پڑے تھے
نہ در تھا نہ مسجد تھی نہ گھر تھا
ایسے دیوانے ہوئے کہ کوچوں میں پڑے تھے
ہم چاہتے تھے گلابوں میں زندگی گزرے
جب اٹھ گئے دیکھا تو کانٹوں میں پڑے تھے
جب ہم گلشن میں انجان بنے بیٹھے تھے
ہم خود بھی جانے کن سوچوں میں پڑے تھے
ہم غریب تھے خواہشیں پوری نہ ہوسکی لیکن
بہت سی حسرتیں تو اپ کے آنکھوں میں پڑے تھے
شام کو تاریکی چھا گئی ہم کو لگا عجیب
ہم سمجھے تھے تیرے زلفوں میں پڑے تھے
اخبار پڑھتے پڑھتے وہ سو گئے نگاہ
اشعار اپنے ان کے با نہوں میں پڑے تھے