اک ایسی دنیا کے ہم طلبگار نکل آئے
جہاں آغاز سے پہلے ہی انجام نکل آئے
ابن آدم کی طاقت کو کیا جانو گے
جہاں رکھے قدم وہیں سے گہر نکل آئے
سر پہ آسماں نہ پاؤں تلے زمیں اپنے
ہم بھی ایسے زنداں کے باسی نکل آئے
بد نصیبی بھی اس طرح چھائی ہے ہم پہ اب
جب منزل پہ پہنچے تو نئے رستے نکل آئے
اک ایسی دنیا کے ہم طلبگار نکل آئے
جہاں آغاز سے پہلے ہی انجام نکل آئے