ایک اسکول کے آنگن میں
تھا اک پھول کا پودا
گرما کی لمبی چھٹیوں میں
پھول کھلا اک اس میں
پہلے پہل جب وہ غنچہ تھا
آنکھیں موندھے ٹھہنی پہ یوں
جھولے جھولا کرتا تھا
جیسے اُس جیسا خوش قسمت
ارض و سماء میں کوئی نہ ہو
لیکن جب وہ پھول بنا
اور جوبن نے لی انگڑائی
اس کو یہ احساس ہوا
کتنی ہے تنہائی
شہر کے بیچوں بیچ اک چھوٹے سے اسکول کے آنگن میں
پھول بہت ہی تنہا تھا
بچے تو تعطیل منانے دور گئے تھے
جھیلوں اور پہاڑوں پر
باغوں اور کھلیانوں میں
شہر کے آلودہ حالات
ہیں دو چار ہی تتلیاں بھنورے
ان کو بھی اس تنہا پھول کے بارے میں
کچھ علم نہ تھا
ورنہ وہ دو چار گھڑی ہی
اس کے پاس آجایا کرتے
ملتے باتیں کرتے گاتے
چومتے منہ اور چوستے رس اک دوجے گا
پھول نے اپنے جوبن کے وہ دن بھی ٹہنی پر کاٹے
جب تک اس سے پہلے آنےوالے اس پودے کے پھول
لاکھ حفاظت کرتا مالی
ننہے ننہے اور معصوم سے ہاتھوں میں سج جاتے تھے
اور کتابوں سے بوجھل بستوں میں بس جاتے تھے
موسم گرما کی بارش بھی
اس کے ہوتے ہو نہ سکھی
اور بارش کے قطروں میں بھی
گرد و غبار اور دھواں تھا
پھر اک دن وہ پھول بآخر سوکھ گیا
سوکھ گیا اور ہلکے سے اک جھونکے سے
پتی پتی بکھر گیا
اس کی قبر کے کتبے پر مٹی نے لکھا
لمس کی لزّت سے ناواقف
اک بدقسمت