اک حشر اضطراب سا قلب و جگر میں ہے
کیا جانے کس بلا کا اثر اس نظر میں ہے
اس پر بھی اختیار نہیں وائے بے بسی
سمجھے ہوئے تھے ہم کہ دل اپنے اثر میں ہے
جلوے تمام کون و مکاں کے سما گئے
وسعت کہاں کی میرے دلِ مختصر میں ہے
ہے دیکھنا تو دیدئہ بینا سے دیکھیے
جلوے ہیں کس کے کون یہ شمس و قمر میں ہے
ان کی نگاہِ ناز سے بھی بے نیاز ہے
سمجھے ہوئے تھے ہم کہ دل ان کے اثر میں ہے
پھر آ رہا ہے کوئی تصور میں بار بار
اخترؔ کچھ آج اور ہی عالم نظر میں ہے