کچھ عشق تھا کچھ مجبوری تھی سو میں نے جیون وار دیا
میں کیسا زندہ آدمی تھا اک شخص نے مجھ کو مار دیا
اک سبز شاخ گلاب کی تھا اک دنیا اپنے خواب کی تھا
وہ ایک بہار جو آئی نہیں اس کے لیے سب کچھ ہار دیا
یہ سجا سجایا گھر ساتھی مری ذات نہیں*مرا حال نہیں
اے کاش کبھی تم جان سکو جو اس سکھ نے آزار دیا
میں کھلی ہوئی اک سچائی مجھے جاننے والے جانتے ھیں
میں نے کن لوگوں سے نفرت کی اور کن لوگوں کو پیار دیا
وہ عشق بہت مشکل تھا مگر آسان نہ تھا یوں جینا
اس عشق نے زندہ رھنے کا مجھے ظرف دیا پندار دیا
میں*روتا ھوں اور آسمان سے تارے ٹوٹتے دیکھتا ھوں
ان لوگون پر جن لوگوں نے مرے لوگوں کو آزار دیا
وہ یار ھوں یا محبوب مرے یا کبھی کبھی ملنے والے
اک لذت سے کے ملنے میں وہ زخم دیا یا پیار دیا
مرے بچوں کو اللہ رکھے ان تازہ ہوا کے جھونکوں نے
میں*خشک پیڑ خزاں کا تھا مجھے کیسا برگ وبار دیا