اک سحر اک شعلہ جلتا میں نے دیکھا دنیا میں
آگ پانی گرد کا اک منبع دیکھا دنیا میں
جلنا بُجھنا اس کی قسمت میں تھا لکھا یا نہیں
بے خبر تھا اس سے پہلے آکے سوچا دنیا میں
خون ریزی جرم دہشت بے حیائی سے بھرا
جانور سے ملتا جُلتا انساں دیکھا دنیا میں
بے ضرر نے زر کی خاطر جھوٹ غیبت کا جنوں
تب سے اب تک اب سے آگے برپا کرنا دنیا میں
تم بھی عامر راکھ بن کر ختم ہو گے ایک دن
چلتا رہتا اس سا اکثر ہے تماشا دنیا میں