اک سوال آبِ تحیر ہہ اچھالے ہوئے ہیں
ہم سنبھالے ہیں، کہ غم ہم کو سنبھالے ہوئے ہیں
کتنے مہنگے ہمیں گندم کے نوالے ہوئے ہیں
جس کی پاداش میں جنت سے نکالے ہوئے ہیں
بیٹیاں آنسو دوپٹے سے کریں صاف اُن کے
جنکے ہاں بیٹے بڑے شوق سے پالے ہوئے ہیں
باپ، بھائی کہ میاں جس نے بھی جیسے چاہا
عورتیں خود کو اُسی سانچے میں ڈھالے ہوئے ہیں
جس کا مسلک ہو جنوں جس کا عقیدہ ہو وفا
اُسکو ! پتھر، کبھی لالےکبھی گالے ہوئے ہیں
اس لیے آج تبسم کا نشاں کوئی نہیں
کیونکہ آنچل کو ہم اشکوں سے کھنگالے ہوئے ہیں
کمرہ ء جاں میں وہی کِرمکِ تنہائی ہے
جس طرف دیکھو گھنے کرب کے جالے ہوئے ہیں
سر بہت جلد ہی کٹ جائیگا عاشی اپنا
سر خمیدوں میں ہمِیں سر کو نکالے ہوئے ہیں
عرفان صدیقی کی زمیں میں