چاہی ہیں جدائیاں تو دے دیں گے تمہیں
بھلے ہی تم پہ سبھی وارنا ہوگا
بس اک خواہش ہے اسے وصیت سمجھو
عاجز قلم کو آنسوؤں میں بھگو کے تمھیں
جدائیوں کے صفحات پہ یوں لکھنا ہوگا
تیری چاہت تو ہے لوٹ کے نہ آنا مگر
وہی درد, ہجر کا مجھے بھی سہنا ہوگا
وہ درد جو راتوں کو میں سہا کرتا تھا
بس آشنا فقط اُس درد سے تجھے ہونا ہوگا
آنکھوں میں نمی, ہونٹوں پہ خوشی لے کے
بھری محفل چھوڑ کے تنہائیوں میں جانا ہوگا
کوئی پوچھے تو یہی بات کہنی ہوگی
روسکتی نہیں پر سبھی سہنا ہوگا
جس درد سے دعاؤں میں مانگا کرتے تھے تجھے
اُس درد سے اِسی دعا کو طلب کرنا ہوگا