اک چراغ زندگی پھر سے گل ھونے کو ھے
جیسے اک سفر کی اب تکمیل ھونے کو ھے
درد دل کو کارجہاں میں بھی چین نہ آیا آخر
اب پھر بہشت کوچ کاحکم لمیزل ھونے کو ھے
عشق نے روح کو کندن کر دیا ھے ایسے
جیسے دریا کا درمیان اب ساحل ھونے کو ھے
عروج انسان سے کیوں خائف ھیں فرشتے
شائد اک بھٹکا ھوا تارہ مہ کامل ھونے کو ھے
لوگ حیران کہ کیسے وہ ھیرے سے بن گیا پتھر
اب وھی پتھر پھر سے گوھر باکمال ھونے کو ھے
میرے صیاد نے قتل کے لیے جو ھے پھندہ بھیجا
اب وھی پھندہ آزادی کے لیےڈھال ھونے کو ھے
وہ وعدہ جو کل تک سراب لگتا تھا مگر
اب وہ پیمان وفا مکمل ھونے کو ھے
اندھیروں میں پھٹکتے رھے زندگی بھر یوں ھی
اب اک دیا لحد پر روشن ھر سال ھونے کو ھے
ظلمتوں کی آندھی میں کچھ ٹھراؤ آ گیا حسن
لگتا ھے اب دل الفت سے مالا مال ھونے کو ھے