اک کہانی سناتے رہے عمر بھر
ریت کا گھر بناتے رہے عمر بھر
یہ الگ بات ہے روشنی نہ ہوئی
ہم دیے تو جلاتے رہے عمر بھر
دیر تک جاگنا دیر تک سوچنا
اپنا وعدہ نبھاتے رہے عمر بھر
اس نے آنے کا اک دن کہا تھا ہمیں
اس کے کوچے ہیں جاتے رہے عمر بھر
اپنے روتے ہوئے روز و شب کٹ گئے
اور وہ خوشیاں مناتے رہے عمر بھر
جانے والے نے مڑ کر نہ دیکھا کبھی
ہم کسی کو بلاتے رہے عمر بھر
اس کی یادو ں نے دامن نہ چھوڑا کبھی
خونِ دل ہم جلاتے رہے عمر بھر
وہ نہ آیا جسے دیکھنا تھا ہمیں
لوگ تو آتے جاتے رہے عمر بھر
وہ ہی خوشیوں کا دشمن تھا سلمیٰ یہاں
ہاتھ جس سے ملاتے رہے عمر بھر