اک ہمدم دیرینہ
رہتا ہے اسی شہر میں
جس کا کوئی انت ہی نہیں ہے
دن اور ہفتے تیزی سے گزر جاتے ہیں
پر اس سے ملاقات نہیں ہوتی
ایک سال بیت گیا
کچھ خبر ہی نہیں ہوئی
میں اس مہربان چہرے
کے دیدار سے محروم رہا
زندگی کے لمحات یوں خاموشی سے گزر جاتے ہیں
اسے بھی پتہ تھا کہ میں
اسے ہر پل یاد کرتا ہوں
ایسے ہی جیسے گزرے رتوں میں
ہم ہر روز ایک دوسرے سے ملتے تھے
وہ سنہری دن تھے
ہماری زندگی کے
بے غرض دوستی کے
جب ہم جوان تھے
لیکن اب ہم بوڑھے ہوگئے ہیں
ان درختوں کی مانند
جن کی جڑیں اندر ہی اندر کھوکھلی ہوتی جارہی ہوں
ہم بیزار ہیں ایک بیوقوفانہ کھیل سے
اور کچھ مصروف بھی ہیں اسی کھیل میں
کھیل بھی کیسا ہے
دولت کمانے کا
نام کمانے کا
ایک دوسرے کو مات کرنے کا
کل صبح میں اسے فون کروں گا
یہ بتانے کے لئے کہ وہ مجھے یاد آتا ہے
دن ہفتے اور مہینے یوں ہی گزر گئے
لیکن وہ دن کبھی نہ آسکا
اور ایک دن ٹیلیفوں کی گھنٹی بجی
ایک پیغام تھا
وہ مہربان چہرہ رخصت ہوگیا
ہم سب ایک دن اسی طرح
اس دنیا سے رخصت ہوجائیں گے