اک ہنر دل لگی میں کر جاؤں
اتنا چاہوں تجھے مکر جاؤں
شبِ معراجِ وحشت ِ غم ہے
ہے وہ تنہا ئی خُود سے ڈر جاؤں
خواہشِ دیدِ انتہاء کے لیے
روبرو اُس کے مختصر جاؤں
جی میں اکثر خیال آتا ہے
تیرے پہلو میں گر کے مر جاؤں
اک ہوا ئے گمان چل نکلے
خاک ہو کر کہیں بکھر جاؤں
کاش اُس آستاں سے پِھر جاؤں
کاش جاؤں تو عمر بھر جاؤں
چھین لو تم لبوں سے گویائی
صبر کرتے نہ آہ کر جاؤں
خُوب بگڑوں عدم توجّہ سے
جو وہ پُوچھے مرا سُدھر جاؤں
عمر بھر کا سفر رہے درکار
اک گلی چھوڑ کر اگر جاؤں
ہے مرا کون پوچھنے والا
میں کدھر جاؤں کس نگر جاؤں
دِل پہ چڑھتے میں تھک رہا ہوں جنیدؔ
چاہتا ہوں کے اب اُتر جاؤں