اکثر یہ بڑے پہاڑ
مجھ سے کچھ کہنا چاھتے ہیں
میں انکے قریب جاتا ہوں
یہ مجھ سے دور ہو جاتے ہیں
ملنے کی کوشش
دونوں جانب سے ہے
مگر
کبھی مجھے دیر ہوئی
تو کبھی وہ دیر کر جاتے ہیں
یہ درخت مجھے اپنے
رقیب سے محسوس ہوتے ہیں
یہ مجھ سے جلتے ہیں
مجھے اپنی چھاؤں سے دور کر کے
میری تڑپ کاموازنہ
گرم تپش سے کرتے ہیں
پہاڑ بھی مجھے دیکھنے کا
منتظر لگتا ہے
جب بھی کھلے آکاش کے سائے تلے
اسے دل بھر کے جو دیکھوں
تو برف سے خود کو
ڈھانپ لیتا ہے
ھوا بھی شاملِ سازش ھے
تیز آوازوں سے
اسکے الفاظ دبا دیتی ہے
لہجے کو گونج نہیں دیتی
مجھے بے بس دیکھ کر
مۤسکراتی ہـے
رشک تو اِن چشموں کی قسمت پہ ہے
جو اِسکے درمیاں بہتے ہیں
اسکے چھو کر
خود کو محزوظ کرتے ہیں
مجھے بے چین دیکھ کر
بہت اِترا کے چلتے ہیں
میں تو احسان مند بس
رِم جِھم کا رہـتا ہوں
جو میرے ارمانوں کا بھرم
بڑے شان سے رکھتی ہے
اّس پر برس کر
میرے پاس آتی ہے
اور اسکی خوشبـو سے
میرا دل بہلاتی ہے
مجھے دِلاسہ دیتی ہـے